نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
شب فراق سے روز جزا زیاد نہیں
کوئی کہے کہ شب مہ میں کیا برائی ہے
بلا سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں
جو آؤں سامنے ان کے تو مرحبا نہ کہیں
جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیرباد نہیں
کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں تو کہتے ہیں
کہ آج بزم میں کچھ فتنہ و فساد نہیں
علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب
گدائے کوچۂ مے خانہ نامراد نہیں
جہاں میں ہو غم شادی بہم ہمیں کیا کام
دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کی شاد نہیں
تم ان کے وعدہ کا ذکر ان سے کیوں کرو غالبؔ
یہ کیا کہ تم کہو اور وہ کہیں کہ یاد نہیں
غزل
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
مرزا غالب