EN हिंदी
نہیں کٹتا ہے یہ میدان بلا | شیح شیری
nahin kaTta hai ye maidan-e-bala

غزل

نہیں کٹتا ہے یہ میدان بلا

خواجہ محمد وزیر لکھنوی

;

نہیں کٹتا ہے یہ میدان بلا
وادیٔ خضر بیابان بلا

مستعد زلف مری رنج پہ ہے
ہے مہیا سر‌ و سامان بلا

مر گیا گیسو پرپیچ میں دل
چھٹ گیا قیدی‌ٔ زندان بلا

ہار پھولوں کی ہیں چوٹی میں عیاں
کیا ہی پھولا ہے گلستان‌ بلا

بولے بکھرا کے وہ زلفیں اپنی
ہم ہوئے سلسلہ جنبان بلا

اونچی چوٹی ہے غضب اے یم‌ حسن
کیا ہی اٹھا ہے یہ طوفان بلا

کان کی لو تری زلفوں میں نہیں
ہے چراغ تہ دامان بلا

گرمیٔ رخ سے عرق ریز ہے زلف
ہے گہر بار یہ نیسان بلا

دل مرے سینے میں ہے محو مژہ
ہے یہی شیر نیستان بلا