EN हिंदी
نہیں جو تیری خوشی لب پہ کیوں ہنسی آئے | شیح شیری
nahin jo teri KHushi lab pe kyun hansi aae

غزل

نہیں جو تیری خوشی لب پہ کیوں ہنسی آئے

سلیمان اریب

;

نہیں جو تیری خوشی لب پہ کیوں ہنسی آئے
یہی بہت ہے کہ آنکھوں میں کچھ نمی آئے

اندھیری رات میں کاسہ بدست بیٹھا ہوں
نہیں یہ آس کہ آنکھوں میں روشنی آئے

ملے وہ ہم سے مگر جیسے غیر ملتے ہیں
وہ آئے دل میں مگر جیسے اجنبی آئے

خود اپنے حال پہ روتی رہی ہے یہ دنیا
ہمارے حال پہ دنیا کو کیوں ہنسی آئے

نہ جانے کتنے زمانوں سے ہم بہکتے ہیں
فقیہ بہکے تو کچھ لطف مے کشی آئے

صلیب و دار کے قصے بہت پرانے ہیں
صلیب و دار تو ہم راہ زندگی آئے

ہری نہ ہو نہ سہی شاخ نخل غم کی اریبؔ
ہمارے گریۂ پیہم میں کیوں کمی آئے