EN हिंदी
نہیں اس دشت میں کوئی خضر ہے | شیح شیری
nahin is dasht mein koi KHizar hai

غزل

نہیں اس دشت میں کوئی خضر ہے

سلیمان احمد مانی

;

نہیں اس دشت میں کوئی خضر ہے
کہ بس میں ہوں مری گرد سفر ہے

حقیقت آخری یہ مختصر ہے
کہیں سنسان سا تاریک گھر ہے

نہ سنگ راہ ہے نہ راہ بر ہے
بھٹکتا دل ہے اور دھندلی نظر ہے

جو منزل ہی سے ہو غافل مسافر
بھلا کیا لطف جو روشن نظر ہے

نہ عالم ہم سے خوش نہ خود سے ہم خوش
یہ بینا آنکھ بھی کیا درد سر ہے

یہ زینے جلدی جلدی چڑھنے والے
پس از بام کیا ہے کچھ خبر ہے