نہیں اس دشت میں کوئی خضر ہے
کہ بس میں ہوں مری گرد سفر ہے
حقیقت آخری یہ مختصر ہے
کہیں سنسان سا تاریک گھر ہے
نہ سنگ راہ ہے نہ راہ بر ہے
بھٹکتا دل ہے اور دھندلی نظر ہے
جو منزل ہی سے ہو غافل مسافر
بھلا کیا لطف جو روشن نظر ہے
نہ عالم ہم سے خوش نہ خود سے ہم خوش
یہ بینا آنکھ بھی کیا درد سر ہے
یہ زینے جلدی جلدی چڑھنے والے
پس از بام کیا ہے کچھ خبر ہے
غزل
نہیں اس دشت میں کوئی خضر ہے
سلیمان احمد مانی