نہیں ہو تم تو ایسا لگ رہا ہے
کہ جیسے شہر میں کرفیو لگا ہے
مرے سائے میں اس کا نقش پا ہے
بڑا احسان مجھ پر دھوپ کا ہے
کوئی برباد ہو کر جا چکا ہے
کوئی برباد ہونا چاہتا ہے
لہو آنکھوں میں آ کر چھپ گیا ہے
نہ جانے شہر دل میں کیا ہوا ہے
کٹی ہے عمر بس یہ سوچنے میں
مرے بارے میں وہ کیا سوچتا ہے
برائے نام ہیں ان سے مراسم
برائے نام جینا پڑ رہا ہے
ستارہ جگمگاتے جا رہے ہیں
خدا اپنا قصیدہ لکھ رہا ہے
گلوں کی باتیں چھپ کر سن رہا ہوں
تمہارا ذکر اچھا لگ رہا ہے
غزل
نہیں ہو تم تو ایسا لگ رہا ہے
فہمی بدایونی