EN हिंदी
نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے در خور مرے تن میں | شیح شیری
nahin hai zaKHm koi baKHiye ke dar-KHur mere tan mein

غزل

نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے در خور مرے تن میں

مرزا غالب

;

نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے در خور مرے تن میں
ہوا ہے تار اشک یاس رشتہ چشم سوزن میں

ہوئی ہے مانع ذوق تماشا خانہ ویرانی
کف سیلاب باقی ہے بہ رنگ پنبہ روزن میں

ودیعت خانۂ بیداد کاوش‌ ہاۓ مژگاں ہوں
نگین نام شاہد ہے مرے ہر قطرۂ خوں تن میں

بیاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی
شب مہ ہو جو رکھ دوں پنبہ دیواروں کے روزن میں

نکوہش مانع بے ربطی شور جنوں آئی
ہوا ہے خندۂ احباب بخیہ جیب و دامن میں

ہوئے اس مہروش کے جلوۂ تمثال کے آگے
پرافشاں جوہر آئینے میں مثل ذرہ روزن میں

نہ جانوں نیک ہوں یا بد ہوں پر صحبت مخالف ہے
جو گل ہوں تو ہوں گلخن میں جو خس ہوں تو ہوں گلشن میں

ہزاروں دل دیے جوش جنون عشق نے مجھ کو
سیہ ہو کر سویدا ہو گیا ہر قطرۂ خوں تن میں

اسدؔ زندانی تاثیر الفت ‌ہاۓ خوباں ہوں
خم دست نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں

فزوں کی دوستوں نے حرص قاتل ذوق کشتن میں
ہوئے ہیں بخیہ ہائے زخم جوہر تیغ دشمن میں

تماشا کردنی ہے لطف زخم انتظار اے دل
سویدا داغ مرہم مردمک ہے چشم سوزن میں

دل و دین و خرد تاراج ناز جلوہ پیرائی
ہوا ہے جوہر آئینہ خیل مور خرمن میں

نکوہش مانع دیوانگی ہائے جنوں آئی
لگایا خندۂ ناصح نے بخیہ جیب و دامن میں