EN हिंदी
نہیں ہے یاد کہ وہ یاد کب نہیں آیا | شیح شیری
nahin hai yaad ki wo yaad kab nahin aaya

غزل

نہیں ہے یاد کہ وہ یاد کب نہیں آیا

صائم جی

;

نہیں ہے یاد کہ وہ یاد کب نہیں آیا
اسے بھلا کے میں جی لوں یہ ڈھب نہیں آیا

یہ سب غلط ہے کہ سنتا نہیں کسی کی وہ
یہ سچ نہیں کہ پکارا تو رب نہیں آیا

وہ یوں تو آتا ہے جاتا ہے میری سانسوں میں
بلایا ویسے اسے جب وہ تب نہیں آیا

کسی کو رزق نہ پہنچا ہو شام سے پہلے
ابھی زمین پہ ایسا غضب نہیں آیا

میں بے لحاظ ہوں شاید تبھی اکیلا ہوں
مرے مزاج میں اب تک ادب نہیں آیا

بھلا چکا ہوں میں صائمؔ ہزار باتوں کو
رہا ہے یاد بس اتنا وہ جب نہیں آیا