نہیں ہے اشک سے یہ خون ناب آنکھوں میں
بھرا ہے رنگ سے تیرے شہاب آنکھوں میں
کہاں نکل سکے آنسو نظر کو جائے نہیں
رکھا ہوں شکل کو تیری میں داب آنکھوں میں
الوہی کس کی تجلی سے ہو گیا ہوں دو چار
جھمک رہا ہے سدا ماہتاب آنکھوں میں
ہوئے ہیں جب سے وہ کیف نگہ کے آئنہ دار
بجائے اشک بھری ہے شراب آنکھوں میں
عمل سے اپنی زباں کس طرح نہ ہو بیکار
جہاں ہو رسم سوال و جواب آنکھوں میں
ہوا ہوں جب سے میں اطلاق اس کے سے آگاہ
جہاں میں دیکھوں ہے واں بو تراب آنکھوں میں
غزل
نہیں ہے اشک سے یہ خون ناب آنکھوں میں
باقر آگاہ ویلوری