EN हिंदी
نہیں ہے آشیاں لیکن ہے خاک آشیاں باقی | شیح شیری
nahin hai aashiyan lekin hai KHak-e-ashiyan baqi

غزل

نہیں ہے آشیاں لیکن ہے خاک آشیاں باقی

ساجد صدیقی لکھنوی

;

نہیں ہے آشیاں لیکن ہے خاک آشیاں باقی
زمانے میں محبت کا ابھی تک ہے نشاں باقی

بڑی حسرت سے میرا تذکرہ کرتے ہیں وہ اکثر
ہے میرے بعد بھی صد شکر میری داستاں باقی

زمانہ ایسا کچھ بدلا ہے ہم تیرہ نصیبوں کا
نہ جادہ ہے نہ منزل اور نہ منزل کا نشاں باقی

چمن والوں کا احساس غلامی جاگ اٹھا ہے
نہیں رہ سکتی اب تو یہ جفائے باغباں باقی

نقوش سجدہ کو میرے حقارت سے نہ دیکھو تم
انہیں سجدوں کی تابش سے ہے حسن داستاں باقی

سلوک ایسا کیا اے باغباں تیری نگاہوں نے
گلستاں میں نہیں ہے اب بہار گلستاں باقی

مخالف باغباں ہو یا فلک بیزار ہو ہم سے
رہے گا حشر تک اپنا چمن میں آشیاں باقی

گیا وہ وقت جب ملتے تھے آپس میں محبت سے
دلوں میں اب سے اے ساجدؔ خلوص دل کہاں باقی