نغمے کو لے صدف کو گہر کی تلاش ہے
خوشبو ہوں مجھ کو پھول سے گھر کی تلاش ہے
جو فکر کو یقین کی دولت عطا کرے
ہم کو تو ایسے دست ہنر کی تلاش ہے
جام و سبو سے ہے نہ ہے ساقی سے کچھ غرض
گلچیں ہے اس کو بس گل تر کی تلاش ہے
ہم ہیں ازل سے گرد رہ کارواں ہمیں
دیوار کی تلاش نہ در کی تلاش ہے
آباد اک نگر ہے ہمارے وجود میں
منظرؔ ہمیں بھی اہل نظر کی تلاش ہے

غزل
نغمے کو لے صدف کو گہر کی تلاش ہے
جاوید منظر