نغمہ کے سوز سے عیاں دل کا گداز ہو گیا
لاکھ چھپایا جذب عشق فاش یہ راز ہو گیا
بزم میں مشتہر ہوئی میری حدیث آرزو
شعلۂ جاں بھڑک اٹھا نغمۂ ساز ہو گیا
فاش نہ کر سکا کوئی راز ترے وجود کا
فاش مجھے جو کر دیا فاش یہ راز ہو گیا
بندۂ بے نوا بڑھے جن و ملک سے تھا عجب
لطف کریم کا مگر ذرہ نواز ہو گیا
میرے گناہوں سے سوا رحمتیں ہیں تری کریم
لاکھ خطاؤں پر بھی تو بندہ نواز ہو گیا
فرحت بندگی ملی تابش زندگی ملی
دل سے جو ایک بار میں محو نماز ہو گیا
تاجؔ نیاز عاشقی راز نمود حسن ہے
جس پہ یہ راز کھل گیا خود ہی وہ راز ہو گیا
غزل
نغمہ کے سوز سے عیاں دل کا گداز ہو گیا
ظہیر احمد تاج