نگر میں رہتے تھے لیکن گھروں سے دور رہے
عجیب لوگ تھے جو دلبروں سے دور رہے
دعائیں مانگتے پھرتے ہیں لوگ گلیوں میں
متاع ہوش ہمارے سروں سے دور رہے
یہ لوگ کیمیا گر ہیں پرکھ نہ لیں ہم کو
یہ بات سوچ کے وہ بے زروں سے دور رہے
متاع درد لٹاتے رہے زمانے میں
ہم اہل درد تھے سوداگروں سے دور رہے
گروں زمین پہ میں ٹوٹ کر ستارا سا
مگر سکون کی خواہش پروں سے دور رہے
نکل کے خود سے شناسائی کی نظر ڈھونڈو
جو لوگ گھر میں رہے دوسروں سے دور رہے
بدن ہے شیشے کے مانند وقت کا اقبال
اسے بتاؤ کہ ہم پتھروں سے دور رہے

غزل
نگر میں رہتے تھے لیکن گھروں سے دور رہے
اقبال منہاس