نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
آج انسان خدا خود کو سمجھ بیٹھا ہے
اس کو انسان بناؤ تو کوئی بات بنے
تیرگی بڑھنے لگی اپنی حدوں سے آگے
مشعلیں دن میں جلاؤ تو کوئی بات بنے
میکدے میں نظر آتے ہیں سبھی جام بدست
مجھ کو آنکھوں سے پلاؤ تو کوئی بات بنے
دھرم کے نام پہ خوں کتنا بہاؤ گے میاں
پیار کے جام لنڈھاؤ تو کوئی بات بنے
مسئلے خون خرابے سے نپٹتے کب ہیں
پیار سے ان کو مناؤ تو کوئی بات بنے
ہو جو دنیا کے لئے امن و سکوں کا ضامن
ایسا پیغام سناؤ تو کوئی بات بنے
جن کے ہونٹوں سے ہنسی چھین لی دنیا نے اشوکؔ
ان کو سینے سے لگاؤ تو کوئی بات بنے
غزل
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
اشوک ساہنی