نفس نفس زندگی کے ہو کر اجل کی تشہیر کر رہے ہیں
یہ کس جتن میں لگے ہیں ہم سب کسے جہانگیر کر رہے ہیں
کہاں پتہ تھا تری شفق ہی پس غبار زوال ہوگی
تجھی کو مسمار کر دیا تھا تری ہی تعمیر کر رہے ہیں
رہ شہادت پہ سر کے ہم راہ اک آسیب چل رہا ہے
ہمیں یزید عہد نہ نکلیں کہ خود کو شبیر کر رہے ہیں
صدائیں دیتی ہوئی خلائیں کہیں زمینوں تک آ نہ جائیں
یہ خواب کاری یہ پر تکلف برائے تعبیر کر رہے ہیں
اگرچہ پہلے یقین کم تھا پر اب تو تصدیق ہو چکی ہے
نہ جانے رد عمل میں کیوں ہم مزید تاخیر کر رہے ہیں
ہمارے سارے گناہ واعظ مقالۂ افتتاحیہ ہیں
ابھی تو ہم نامۂ عمل کا مقدمہ تحریر کر رہے ہیں
غزل
نفس نفس زندگی کے ہو کر اجل کی تشہیر کر رہے ہیں
عاقب صابر