EN हिंदी
نفس نفس نہ کہیں جائے رائیگاں اپنا | شیح شیری
nafas nafas na kahin jae raegan apna

غزل

نفس نفس نہ کہیں جائے رائیگاں اپنا

حبیب راحت حباب

;

نفس نفس نہ کہیں جائے رائیگاں اپنا
ہوا کی شاخ پہ رکھا ہے آشیاں اپنا

ہمارے خواب میں کمخواب ہے نہ ریشم ہے
یقیں یقیں ہی رہا ہے نہ اب گماں اپنا

عبا قبا تو ہے شاہوں کی چونچلے بازی
قلندروں کا ہے سب سے الگ جہاں اپنا

ترے خلوص کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں ہم
نہ سود سود ہے اپنا نہ ہے زیاں اپنا

نگاہ ناز نے بے خود کیا ہے جس دن سے
متاع جسم ہے اپنی نہ زاد جاں اپنا

کیا ہے چاند پہ بسنے کا عہد جب اس نے
زمین ڈھونڈھتی پھرتی ہے آسماں اپنا

وہیں وہیں سے نمو پائے گی مری ہستی
لہو حبابؔ گرا ہے جہاں جہاں اپنا