نفس نفس نہ کہیں جائے رائیگاں اپنا
ہوا کی شاخ پہ رکھا ہے آشیاں اپنا
ہمارے خواب میں کمخواب ہے نہ ریشم ہے
یقیں یقیں ہی رہا ہے نہ اب گماں اپنا
عبا قبا تو ہے شاہوں کی چونچلے بازی
قلندروں کا ہے سب سے الگ جہاں اپنا
ترے خلوص کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں ہم
نہ سود سود ہے اپنا نہ ہے زیاں اپنا
نگاہ ناز نے بے خود کیا ہے جس دن سے
متاع جسم ہے اپنی نہ زاد جاں اپنا
کیا ہے چاند پہ بسنے کا عہد جب اس نے
زمین ڈھونڈھتی پھرتی ہے آسماں اپنا
وہیں وہیں سے نمو پائے گی مری ہستی
لہو حبابؔ گرا ہے جہاں جہاں اپنا

غزل
نفس نفس نہ کہیں جائے رائیگاں اپنا
حبیب راحت حباب