نئے زمانے میں اب یہ کمال ہونے لگا
کہ قتل کر کے بھی قاتل نہال ہونے لگا
مری تباہی کا باعث جو ہے زمانے سے
اسی کو اب مرا کاہے خیال ہونے لگا
ہوائے عشق نے بھی گل کھلائے ہیں کیا کیا
جو میرا حال تھا وہ تیرا حال ہونے لگا
شب فراق وہ کیسا تھا جشن یادوں کا
کہ جس کا ذکر بھی بعد وصال ہونے لگا
جو رنج و غم میں مرے ساتھ ساتھ تھا اب تک
اسے بھی میری خوشی سے ملال ہونے لگا
جہاں پہ منظر جلوہ تھا صرف وہم و گماں
وہیں پہ جلسۂ زہرہ جمال ہونے لگا
تمہارے قدر سے اگر بڑھ رہی ہو پرچھائیں
سمجھ لو دھوپ کا وقت زوال ہونے لگا
نہ خود کو بیچا نہ کوئی خوشامدیں کی ہیں
تو کیسے تم پہ یہ بیکلؔ سوال ہونے لگا
غزل
نئے زمانے میں اب یہ کمال ہونے لگا
بیکل اتساہی