نئے نیرنگ دکھلاتا ہے یہ چرخ کہن کیا کیا
جہاں میں گل کھلائے گی ابھی خاک چمن کیا کیا
جہاں کی سر بلندی کا مآل کار پستی ہے
نشاط و عیش منعم پر ہے مفلس خندہ زن کیا کیا
اسی حسن ازل کی لوح عالم پر ہیں تحریریں
وہی اک عشق کا مضموں ہے انداز سخن کیا کیا
ابھی سے رہ نورد عشق ہمت ہار بیٹھے ہیں
گزرنی ہیں ابھی تو گھاٹیاں ان کو کٹھن کیا کیا
غزل
نئے نیرنگ دکھلاتا ہے یہ چرخ کہن کیا کیا
خوشی محمد ناظر