نئے مزاج کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں
ہم اپنے آپ کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں
قبول ترک تعلق نہیں ہے لیکن ہم
تمہارے حکم کی تعمیل کرنا چاہتے ہیں
غموں کے فیل نہ ڈھا دیں کہیں یہ کعبۂ دل
سو ہم دعائے ابابیل کرنا چاہتے ہیں
ہمارے جلنے سے ملتی ہے روشنی تم کو
تو روشن اب یہی قندیل کرنا چاہتے ہیں
جب ان کی کوئی بھی تعبیر پا نہیں سکتے
ہوا میں خوابوں کو تحلیل کرنا چاہتے ہیں
کتاب زیست میں مشکل ہے باب عشق ندیمؔ
ہم ایسے باب کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں
غزل
نئے مزاج کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں
فرحت ندیم ہمایوں