نئے جزیروں کی ہم کو بھی چاہتیں تھیں بہت
ہماری راہ میں لیکن روایتیں تھیں بہت
کہیں بھی آگ لگے اس کا نام آتا ہے
اسے چراغ جلانے کی عادتیں تھیں بہت
کسی کا لہجہ یقیناً فریب لگتا تھا
مگر فریب کے پیچھے صداقتیں تھیں بہت
اندھیرے زخم مسائل دھواں لہو آنسو
گنواتے ہم بھی کہاں تک وراثتیں تھیں بہت
وہ جس کی گفتگو پھولوں کا استعارہ تھی
خموشیوں میں بھی اس کی فصاحتیں تھیں بہت
اتارا جاتا تھا صدقہ ہماری جان کا بھی
ہمارے دم سے بھی منسوب چاہتیں تھیں بہت
بہت سمجھتے ہیں تھوڑے لکھے کو ہم شادابؔ
ہمارے واسطے اک دو شکایتیں تھیں بہت
غزل
نئے جزیروں کی ہم کو بھی چاہتیں تھیں بہت
معین شاداب