EN हिंदी
نئے اک شہر کو صبح سفر کیا لے چلی مجھ کو | شیح شیری
nae ek shahr ko subh-e-safar kya le chali mujhko

غزل

نئے اک شہر کو صبح سفر کیا لے چلی مجھ کو

قتیل شفائی

;

نئے اک شہر کو صبح سفر کیا لے چلی مجھ کو
صدائیں دے رہی ہے ایک چھوٹی سی گلی مجھ کو

میں اپنی عمر بھر کا چین جب اس در پہ چھوڑ آیا
ملی ہے تب کہیں جا کر ذرا سی بے کلی مجھ کو

میں قطرے گن کے انسانوں کی تقدیریں بناتا ہوں
ذرا سی تشنہ کامی نے بنا ڈالا ولی مجھ کو

میں وہ گلشن گزیدہ ہوں کہ تنہائی کے موسم میں
نہیں ہوتے اگر کانٹے تو ڈستی ہے کلی مجھ کو

محبت تھی اسے لیکن مرا افلاس جب دیکھا
پریشاں سی نظر آئی وہ نازوں کی پلی مجھ کو

قتیلؔ آباد جب گھر تھا تو کیوں مجھ پر کہیں غزلیں
یہ طعنہ جاتے جاتے دے گئی اک دل جلی مجھ کو