نئے اک شہر کو صبح سفر کیا لے چلی مجھ کو
صدائیں دے رہی ہے ایک چھوٹی سی گلی مجھ کو
میں اپنی عمر بھر کا چین جب اس در پہ چھوڑ آیا
ملی ہے تب کہیں جا کر ذرا سی بے کلی مجھ کو
میں قطرے گن کے انسانوں کی تقدیریں بناتا ہوں
ذرا سی تشنہ کامی نے بنا ڈالا ولی مجھ کو
میں وہ گلشن گزیدہ ہوں کہ تنہائی کے موسم میں
نہیں ہوتے اگر کانٹے تو ڈستی ہے کلی مجھ کو
محبت تھی اسے لیکن مرا افلاس جب دیکھا
پریشاں سی نظر آئی وہ نازوں کی پلی مجھ کو
قتیلؔ آباد جب گھر تھا تو کیوں مجھ پر کہیں غزلیں
یہ طعنہ جاتے جاتے دے گئی اک دل جلی مجھ کو
غزل
نئے اک شہر کو صبح سفر کیا لے چلی مجھ کو
قتیل شفائی