نئے ہیں وصل کے موسم محبتیں بھی نئی
نئے رقیب ہیں اب کے عداوتیں بھی نئی
جواں دلوں میں پنپتے ہیں اب نئے رومان
حسین چہروں پہ لکھی عبارتیں بھی نئی
وہ مجھ کو چھو کے پشیماں ہے اجنبی کی طرح
ادائیں اس کی اچھوتی شرارتیں بھی نئی
وہ جس نے سر میں دیا انقلاب کا سودا
مرے لہو کو وہ بخشے حرارتیں بھی نئی
خوشی میں ہنس نہیں سکتے یہ غم کہ غم بھی نہیں
ہمارے کرب انوکھے اذیتیں بھی نئی
نئی روش نئے امکاں نرالا طرز سخنؔ
ہمارے لفظوں سے روشن بشارتیں بھی نئی
غزل
نئے ہیں وصل کے موسم محبتیں بھی نئی
عبد الوہاب سخن