نئے فتنوں کے ہر جانب سے اتنے سر نکل آئے
زمیں پر جس طرح سبزہ نمی پا کر نکل آئے
بہت ہشیار لوگو اس نئی تاریخ کے ہاتھوں
نہ جانے کب تمہارا گھر کسی کا گھر نکل آئے
کہیں کے پھول پتے ہیں کہیں کے پھل کہیں کے ہیں
کچھ ایسے پیڑ بھی بھارت کی دھرتی پر نکل آئے
در تقدیس کو جب وا کیا تو قصر حرمت سے
بتاؤں کیا تمہیں کہ کتنے سوداگر نکل آئے
تمہارا اور تمہارے نظم کا اس روز کیا ہوگا
کبھی سوچا ہے دیواروں میں جس دن در نکل آئے
سعادتؔ آپ اس دیدہ وروں کی بھیڑ میں ڈھونڈھیں
بہت ممکن ہے ان میں کوئی دیدہ ور نکل آئے

غزل
نئے فتنوں کے ہر جانب سے اتنے سر نکل آئے
سعادت باندوی