نئے دنوں کے نئے صحیفوں میں ذکر مہر و وفا نہیں ہے
محبتوں کی جسارتوں کی سزا نہیں ہے جزا نہیں ہے
نگاہ کے شوخ پن کو بیگانگی کا آسیب ڈس گیا ہے
مغائرت کا فسوں زدہ دل جنوں کے شایاں رہا نہیں ہے
کوئی بھی سجنی کسی بھی ساجن کی منتظر ہے نہ مضطرب ہے
تمام بام اور در بجھے ہیں کہیں بھی روشن دیا نہیں ہے
حیات کے پر جمال منظر پہ کوئی نطق اور قلم نہ مہکا
نیا قلم کار ندرت فن کی خوشبوؤں پر فدا نہیں ہے
یہیں پہ کل ہم سے تم سے یارو مودتوں کو جنم ملا تھا
دیار یاراں وہی ہے لیکن کوئی وفا آشنا نہیں ہے
وصال گھڑیوں فراق لمحوں کے غم، طرب سب فسانچے ہیں
ملن کا اور نا ملن کا سکھ دکھ دلوں کی تہہ میں چھپا نہیں ہے
میں دیر و کعبہ میں ڈھونڈ آیا تو میں نے پایا یہ علم و عرفاں
میں ایک انساں ہوں میری ہستی سے کوئی ہستی ورا نہیں ہے
وہ چشم بینا کی منزلیں تھیں یہ کور چشمی کے مرحلے ہیں
پرانی پہچان مر گئی ہے کسی سے کوئی ملا نہیں ہے
غزل
نئے دنوں کے نئے صحیفوں میں ذکر مہر و وفا نہیں ہے
انور علیمی