EN हिंदी
نئے ڈھب کا کچھ جوش سودا ہوا ہے | شیح شیری
nae Dhab ka kuchh josh-e-sauda hua hai

غزل

نئے ڈھب کا کچھ جوش سودا ہوا ہے

نسیم دہلوی

;

نئے ڈھب کا کچھ جوش سودا ہوا ہے
خدا جانے اب کے مجھے کیا ہوا ہے

تعلق ان آنکھوں سے پیدا ہوا ہے
بہت دن کا یہ خواب دیکھا ہوا ہے

نہ عالم میں تجھ سا نہ مجھ سا جہاں میں
نہ ایسا ہوا ہے نہ ویسا ہوا ہے

نہ لے قیس آگے مرے نام وحشت
ابھی کل کی ہے بات پیدا ہوا ہے

پھر اٹھتا ہے دود محبت جگر سے
وہی حال اگلا سا میرا ہوا ہے

یہ گھر بار ہے دیدۂ اشک زا سے
مرا دامن آغوش دریا ہوا ہے

وہ وادیٔ ایمن پہ موقوف کیا ہے
ہمارا ہر اک دشت دیکھا ہوا ہے

ذرا دم تو لینے دے اے چشم جادو
بڑی مدتوں میں دل اچھا ہوا ہے

کہا میں نے تنہائی ہے بات سن لو
کہا ہنس کے تم کو تو سودا ہوا ہے

ترقی پہ ہے نوجوانی تمہاری
ابھی کیا ہوا ہے ابھی کیا ہوا ہے

حجاب نظر سے کھلے بھید دل کے
عبث ہم سے ظاہر میں پردا ہوا ہے

ہماری تمہاری تو ہیں دل کی باتیں
نہ مانو اگر اس کا چرچا ہوا ہے

نہ گھبراؤ جانا اجی ہم بھی سمجھے
کہیں اور بھی آج وعدہ ہوا ہے

نہ مانیں گے ہم آج تو لے چلیں گے
بہت روز امروز فردا ہوا ہے

اگر تم بھی دیکھو تو رونے لگو گے
مری جان یہ حال اپنا ہوا ہے

نسیمؔ اب کہاں قدردان سخن ہیں
کہے شعر یہ بھی جو چرچا ہوا ہے