EN हिंदी
نئے دیس کا رنگ نیا تھا | شیح شیری
nae des ka rang naya tha

غزل

نئے دیس کا رنگ نیا تھا

ناصر کاظمی

;

نئے دیس کا رنگ نیا تھا
دھرتی سے آکاش ملا تھا

دور کے دریاؤں کا سونا
ہرے سمندر میں گرتا تھا

چلتی ندیاں گاتے نوکے
نوکوں میں اک شہر بسا تھا

نوکے ہی میں رین بسیرا
نوکے ہی میں دن کٹتا تھا

نوکا ہی بچوں کا جھولا
نوکا ہی پیری کا عصا تھا

مچھلی جال میں تڑپ رہی تھی
نوکا لہروں میں الجھا تھا

ہنستا پانی، روتا پانی
مجھ کو آوازیں دیتا تھا

تیرے دھیان کی کشتی لے کر
میں نے دریا پار کیا تھا