EN हिंदी
نبود و بود کے منظر بناتا رہتا ہوں | شیح شیری
nabud o bud ke manzar banata rahta hun

غزل

نبود و بود کے منظر بناتا رہتا ہوں

کامی شاہ

;

نبود و بود کے منظر بناتا رہتا ہوں
میں زرد آگ میں خود کو جلاتا رہتا ہوں

ترے جمال کا صدقہ یہ آتش روشن
چراغ آب رواں پر بہاتا رہتا ہوں

دعائیں اس کے لیے ہیں صدائیں اس کے لیے
میں جس کی راہ میں بادل بچھاتا رہتا ہوں

اداس دھن ہے کوئی ان غزال آنکھوں میں
دیے کے ساتھ جسے گنگناتا رہتا ہوں

عجیب سست روی سے یہ دن گزرتے ہیں
میں آسمان پہ شامیں بناتا رہتا ہوں

میں اڑتا رہتا ہوں نیلے سمندروں میں کہیں
سو تتلیوں کے لیے خواب لاتا رہتا ہوں

یہ مجھ میں پھیل رہا ہے جو اضطراب شدید
تو پھر یہ طے ہے اسے یاد آتا رہتا ہوں