نازل ہوا تھا شہر میں کالا عذاب ایک
غارت گر نصیب تھا خانہ خراب ایک
سانسیں سسکتی رہ گئیں دیوار و در کے بیچ
برپا ہوا تھا چھت پہ نیا انقلاب ایک
میرا سفر تھا جسم کے باہر فلک کی سمت
اترا تھا میری قبر پہ جب آفتاب ایک
میرے لیے بہت تھی خزاں دیدہ روشنی
اس کی پسند لاکھ مرا انتخاب ایک
ارض و سما سے کوئی تعلق نہ رابطہ
راس آ گیا ہے مجھ کو سفر لا جواب ایک
شہر غزل میں جوہر نایاب فن علیمؔ
ہیں سینکڑوں جناب میں عالی جناب ایک
![nazil hua tha shahr mein kala azab ek](/images/pic02.jpg)
غزل
نازل ہوا تھا شہر میں کالا عذاب ایک
علیم صبا نویدی