نایاب چیز کون سی بازار میں نہیں
لیکن میں ان کے چند خریدار میں نہیں
چھو کر بلندیوں کو پلٹنا ہے اب مجھے
کھانے کو میرے گھاس بھی کہسار میں نہیں
آتا تھا جس کو دیکھ کے تصویر کا خیال
اب تو وہ کیل بھی مری دیوار میں نہیں
عرفان و آگہی کی یہ ہم کس ہوا میں ہیں
جنبش تک اس کے پردۂ اسرار میں نہیں
اگلا سا مجھ میں شوق شہادت نہیں اگر
پہلی سی کاٹ بھی تری تلوار میں نہیں
غزل
نایاب چیز کون سی بازار میں نہیں
غلام مرتضی راہی