EN हिंदी
نایاب چیز کون سی بازار میں نہیں | شیح شیری
nayab chiz kaun si bazar mein nahin

غزل

نایاب چیز کون سی بازار میں نہیں

غلام مرتضی راہی

;

نایاب چیز کون سی بازار میں نہیں
لیکن میں ان کے چند خریدار میں نہیں

چھو کر بلندیوں کو پلٹنا ہے اب مجھے
کھانے کو میرے گھاس بھی کہسار میں نہیں

آتا تھا جس کو دیکھ کے تصویر کا خیال
اب تو وہ کیل بھی مری دیوار میں نہیں

عرفان و آگہی کی یہ ہم کس ہوا میں ہیں
جنبش تک اس کے پردۂ اسرار میں نہیں

اگلا سا مجھ میں شوق شہادت نہیں اگر
پہلی سی کاٹ بھی تری تلوار میں نہیں