EN हिंदी
ناؤ خستہ بھی نہ تھی موج میں دریا بھی نہ تھا | شیح شیری
naw KHasta bhi na thi mauj mein dariya bhi na tha

غزل

ناؤ خستہ بھی نہ تھی موج میں دریا بھی نہ تھا

نجیب احمد

;

ناؤ خستہ بھی نہ تھی موج میں دریا بھی نہ تھا
پار اترتا تھا مگر تجھ پہ بھروسہ بھی نہ تھا

زندگی ہاتھ نہ دے پائی مرے ہاتھوں میں
ساتھ جانا بھی نہ تھا ہاتھ چھڑانا بھی نہ تھا

جن پہ اک عمر چلا تھا انہی رستوں پہ کہیں
واپس آیا تو مرا نقش کف پا بھی نہ تھا

غرق دنیا کے لیے دست دعا کیا اٹھتے
کوئی اس گھر میں دعا مانگنے والا بھی نہ تھا

ہر کوئی میرا خریدار نظر آیا مجھے
چاک پر میں نے ابھی خود کو ابھارا بھی نہ تھا

پھیلتا جاتا ہے ہر سانس رگ و پے میں نجیبؔ
ایک صحرا جو ابھی راہ میں آیا بھی نہ تھا