EN हिंदी
ناشتے پر جسے آزاد کیا ہے میں نے | شیح شیری
nashte par jise aazad kiya hai maine

غزل

ناشتے پر جسے آزاد کیا ہے میں نے

رؤف رضا

;

ناشتے پر جسے آزاد کیا ہے میں نے
دوپہر کے لیے ارشاد کیا ہے میں نے

اے مرے دل تری ہستی نظر آتی تھی کہاں
تو کہاں تھا تجھے ایجاد کیا ہے میں نے

پھول ہی پھول ہیں تا حد نظر پھول ہی پھول
اس خرابے کے لیے یاد کیا ہے میں نے

سارے اسباب وہاں رکھے ہیں دروازے کے پاس
تیری جاگیر کو آباد کیا ہے میں نے

خاص موقعوں پہ جھلک اپنی دکھا سکتے ہیں
جن کو سنجیدۂ فریاد کیا ہے میں نے

آج وہ بھول سدھاروں تو سدھاروں کیسے
اس کو رخصت بہ دل شاد کیا ہے میں نے

دلی والوں کی زباں میں جسے دل کہتے ہیں
سرخ انگار تھا برباد کیا ہے میں نے