ناقوس کی صداؤں سے اور نہ اذان سے
نفرت ہے اس کو ملک کے امن و امان سے
ملت فروش کو کسی ملت سے کیا غرض
اس کو تو ہے غرض فقط اپنی دکان سے
چھلنی جو کر گیا تھا اجودھیا کو رام کی
نکلا تھا تیر وہ بھی اسی کی کمان سے
اپنا بنا کے آپ نے یہ کیا غضب کیا
بیگانہ کر دیا مجھے سارے جہان سے
دل کو انہیں سے راہ بھی ہوتی ہے کچھ عتیقؔ
الفاظ جو نکلتے ہیں دل کی زبان سے
غزل
ناقوس کی صداؤں سے اور نہ اذان سے
عتیق مظفر پوری