نامۂ یار جو سحر پہونچا
خوش رقم خوب وقت پر پہونچا
تھا لکھا یوں کہ اے نظیرؔ اب تک
کس سبب تو نہیں ادھر پہونچا
میں نے اس کو کہا کہ اے محبوب
اس لیے میں نہیں ادھر پہونچا
یوں سنا تھا تم آپی آتے ہو
اس میں نامہ یہ پر گہر پہونچا
مجھ کو پہونچا ہی جانو اپنے پاس
آج کل شام یا سحر پہونچا
غزل
نامۂ یار جو سحر پہونچا
نظیر اکبرآبادی