نام سنتا ہوں ترا جب بھرے سنسار کے بیچ
لفظ رک جاتے ہیں آ کر مری گفتار کے بیچ
ایک ہی چہرہ کتابی نظر آتا ہے ہمیں
کبھی اشعار کے باہر کبھی اشعار کے بیچ
ایک دل ٹوٹا مگر کتنی نقابیں پلٹیں
جیت کے پہلو نکل آئے کئی ہار کے بیچ
کوئی محفل ہو نظر اس کی ہمیں پر ٹھہری
کبھی اپنوں میں ستایا کبھی اغیار کے بیچ
ایسے زاہد کی قیادت میں تو توبہ توبہ
کبھی ایمان کی باتیں کبھی کفار کے بیچ
کبھی تہذیب و تمدن کا یہ مرکز تھا میاں
تم کو بستی جو نظر آتی ہے آثار کے بیچ
جس طرح ٹاٹ کا پیوند ہو مخمل میں عدیلؔ
مغربی چال چلن مشرقی اقدار کے بیچ
غزل
نام سنتا ہوں ترا جب بھرے سنسار کے بیچ
عدیل زیدی