نام سے گاندھیؔ کے چڑھ بیر آزادی سے ہے
نفرتوں کی کھاد ہیں الفت مگر کھادی سے ہے
عالموں کا علم سے وہ ربط ہے اس دور میں
ربط دھوبی کے گدھے کا جس طرح لادی سے ہے
خواب غفلت سے وہی نسبت ہے میری قوم کو
عاشقوں کا جو تعلق دل کی بربادی سے ہے
شوہروں سے بیبیاں لڑتی ہیں چھاپہ مار جنگ
رابطہ ان کا بھی کیا کشمیر کی وادی سے ہے
دیکھنا ہے اب یہی دیتا ہے کس کو کون مات
سامنا جنتا کا پھر کرسی کے فریادی سے ہے
جیسے صیادوں کو صیادی سے رہتی ہے غرض
کام استادوں کو ویسے اپنی استادی سے ہے
باپ دادا کے ہی نسخے میں ہے اپنی بھی شفا
ہم کو دیرینہ تعلق خانہ دامادی سے ہے
شرم سے ہوتا نہیں ہے واسطہ بے شرم کو
جو مخنث ہو اسے کیا واسطہ شادی سے ہے
دوستوں کی دوستی دیکھی ہے جب سے اے ظفرؔ
عشق ویرانے سے ہے تو وحشت آبادی سے ہے
غزل
نام سے گاندھیؔ کے چڑھ بیر آزادی سے ہے
ظفر کمالی