EN हिंदी
نام ہی کیا نشاں ہی کیا خواب و خیال ہو گئے | شیح شیری
nam hi kya nishan hi kya KHwab-o-KHayal ho gae

غزل

نام ہی کیا نشاں ہی کیا خواب و خیال ہو گئے

جون ایلیا

;

نام ہی کیا نشاں ہی کیا خواب و خیال ہو گئے
تیری مثال دے کے ہم تیری مثال ہو گئے

سایۂ ذات سے بھی رم عکس صفات سے بھی رم
دشت غزل میں آ کے دیکھ ہم تو غزال ہو گئے

کہتے ہی نشہ‌ ہائے ذوق کتنے ہی جذبہ ہائے شوق
رسم تپاک یار سے رو بہ زوال ہو گئے

عشق ہے اپنا پائیدار تیری وفا ہے استوار
ہم تو ہلاک ورزش فرض محال ہو گئے

جادۂ شوق میں پڑا قحط غبار کارواں
واں کے شجر تو سر بسر دست سوال ہو گئے

سخت زمیں پرست تھے عہد وفا کے پاسدار
اڑ کے بلندیوں میں ہم گرد ملال ہو گئے

قرب جمال اور ہم عیش وصال اور ہم
ہاں یہ ہوا کہ ساکن شہر جمال ہو گئے

ہم نفسان وضع دار مستمعان برد بار
ہم تو تمہارے واسطے ایک وبال ہو گئے

کون سا قافلہ ہے یہ جس کے جرس کا ہے یہ شور
میں تو نڈھال ہو گیا ہم تو نڈھال ہو گئے

خار بہ خار گل بہ گل فصل بہار آ گئی
فصل بہار آ گئی زخم بحال ہو گئے

شور اٹھا مگر تجھے لذت گوش تو ملی
خون بہا مگر ترے ہاتھ تو لال ہو گئے

جونؔ کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
اب کئی ہجر ہو چکے اب کئی سال ہو گئے