نالۂ دل کی صدا دیوار میں ہے در میں ہے
صور یا محشر میں ہوگا یا ہمارے گھر میں ہے
یوں تو مرنے کو مروں گا میں مگر مٹی مری
یا فلک کے ہاتھ میں یا آپ کی ٹھوکر میں ہے
میں پریشاں ہو کے نکلوں گا تو ان کی بزم سے
میری بربادی کا ساماں ہے تو ان کے گھر میں ہے
وہ اگر دیکھیں تو اب حالت سنبھلتی ہے مری
وہ اگر پوچھیں تو اب مجھ کو شفا دم بھر میں ہے
یہ نہیں موقعہ ہنسی کا تم نظر بدلے رہو
اب قضا میری اسی بگڑے ہوئے تیور میں ہے
دے دے چلو میں اکٹھی کر کے اے ساقی مجھے
کچھ ابھی تو خم میں ہے شیشے میں ہے ساغر میں ہے
نقد جاں لینے کو مقتل میں قضا ندرت مری
بن کے دلہن رونما آئینۂ خنجر میں ہے
غزل
نالۂ دل کی صدا دیوار میں ہے در میں ہے
شعیب احمد میرٹھی ندرت