ناکام میری کوشش ضبط الم نہیں
یوں مطمئن ہوں جیسے مجھے کوئی غم نہیں
تاریکیوں میں آج بھی گم ہے وہ رہ گزر
جس کو نصیب آپ کے نقش قدم نہیں
اس دور میں کہ جس میں ہے جنس وفا کا قحط
ہم سے وفا شعار جو باقی ہیں کم نہیں
تیرے سوا کسی سے اجالوں کی بھیک لے
کم ظرف اس قدر تو مری شام غم نہیں
بکھرے ہوئے سے راہیؔ یہ اوراق زندگی
اپنی حیات زلف پریشاں سے کم نہیں
غزل
ناکام میری کوشش ضبط الم نہیں
راہی شہابی