ناچیز بھی خوباں سے ملاقات میں گم ہے
مجذوب ذرا سیر مقامات میں گم ہے
کیا شمع جلاتا ہے کہ اے دولت شب تاب
کل صبح کا سورج تو تری گات میں گم ہے
کھلتے ہی نہیں لمس پہ اس جسم کے اسرار
سیاح عجب شہر طلسمات میں گم ہے
میں ڈوب گیا جب ترے پیکر میں تو ٹوٹا
یہ وہم کہ تو خود ہی مری ذات میں گم ہے
یا حسن ہی اس شہر میں کافر نہیں ہوتا
یا عشق یہاں عزت سادات میں گم ہے
غزل
ناچیز بھی خوباں سے ملاقات میں گم ہے
عرفانؔ صدیقی