نا وہ مسرت گناہ میں ہے نہ وہ کشش اب ثواب میں ہے
خراب سامان زندگی سب جہاں کی بزم خراب میں ہے
حسین بے شک ہے بزم انجم قمر بھی ہاں کچھ حساب میں ہے
مگر یہاں تو ہی تو ہے یکتا سوال تیرے جواب میں ہے
یہاں ہے بیکار اس کی حسرت یہاں کی وہ چیز ہی نہیں ہے
کرے وہ راحت کی جستجو کیوں جو اس جہان خراب میں ہے
پڑی ہے بے باک جس پہ اس کو پلا دیا ایک جام مستی
بلا کی مستی بھری ہوئی اس نگاہ مست شباب میں ہے
بدل گئی ہے نگاہ ساقی تو رنگ محفل بدل گیا ہے
نہ اب وہ پہلی سی مے کشی ہے نہ وہ مزا اب شراب میں ہے
سنا تھا ہم نے کہ حشر میں وہ دکھانے والے ہیں اپنا جلوہ
مگر جو دیکھا تو آج بھی وہ جمال رنگیں نقاب میں ہے
دکھا رہا ہے اچھل اچھل کر یہ سب کو جوش نمود غافل
کہ گویا دریائے بے کراں اک نہاں جہان حباب میں ہے
کہاں وہ نغموں میں سوز مطرب کہاں وہ عیش و طرب کی دنیا
کہاں وہ پہلا سا کیف باقی صدائے چنگ و رباب میں ہے
ہزاروں رنگینیاں بھی دیکھیں ہزار جلوے بھی ہم نے دیکھے
مگر جو پھر غور کر کے دیکھا تو حسن مطلق حجاب میں ہے
جہاں کے سب رنج و غم مٹا دے مرے مقدر کو پھر جگا دے
الٰہی خوشترؔ کی التجا یہ مدام تیری جناب میں ہے
غزل
نا وہ مسرت گناہ میں ہے نہ وہ کشش اب ثواب میں ہے
ممتاز احمد خاں خوشتر کھنڈوی