ناتوانی میں بھی وہ کردار ہونا چاہئے
اپنے ہی کاندھے پہ اپنا بار ہونا چاہئے
یہ خیال آنے لگا ہے کس توقع پر تمہیں
راہ میں ہر پیڑ سایہ دار ہونا چاہئے
شہر بھر میں سخت جانی کے لیے مشہور ہوں
میری خاطر اک نہ اک آزار ہونا چاہئے
میرا دشمن دور تک کوئی نہیں میرے سوا
اور دشمن سے مجھے ہشیار ہونا چاہئے
یہ سبک ساران ساحل کس قدر ہیں مطمئن
ان کے آگے بھی کوئی منجھدار ہونا چاہئے
پھول کی پتی سے بھی نازک ہے کچھ دل کا مزاج
لوگ کہتے ہیں مجھے تلوار ہونا چاہئے
موت کے آسیب سے رونقؔ عبث ڈرتے ہیں لوگ
زندگی بھر زندگی سے پیار ہونا چاہئے

غزل
ناتوانی میں بھی وہ کردار ہونا چاہئے
رونق نعیم