ناتواں وہ ہوں کہ دم بھر نہیں بیٹھا جاتا
وہ بلاتے تو ابھی اٹھ کے میں دوڑا جاتا
بت کدے میں بھی گیا کعبہ کی جانب بھی گیا
اب کہاں ڈھونڈھنے تجھ کو ترا شیدا جاتا
کیوں جی کیوں غیر کی باتوں کا تو دیتے ہو جواب
ہم جو کچھ پوچھیں تو منہ سے نہیں پھوٹا جاتا
یک بہ یک ترک نہ کرنا تھا محبت مجھ سے
خیر جس طرح سے آتا تھا وہ آتا جاتا
کہہ کے یہ ٹل گئے بالیں سے عیادت کو جو آئے
اب ترا حال پریشاں نہیں دیکھا جاتا
خواہش دشت نوردی کبھی ہوتی نہ مجھے
بے وفا تو مرے گھر پر کبھی آتا جاتا
خاک پھولوں پھلوں اس گلشن ویراں میں حقیرؔ
باغ ہستی سے خزاں کا نہیں کھٹکا جاتا
غزل
ناتواں وہ ہوں کہ دم بھر نہیں بیٹھا جاتا
حقیر