نا قابل یقیں تھا اگرچہ شروع میں
سورج مگر غروب ہوا تھا طلوع میں
ملا کو دے دیا ہے نمازوں کا باقی کام
خود کو لگا لیا ہے خشوع و خضوع میں
صرف ایک چہرہ ایک ہی نام ایک ہی خیال
ہوتا ہے سب کے ساتھ یہی سب شروع میں
اتنے حلالہ باز اگر گھات میں نہ ہوں
کیا ایسا فاصلہ ہے طلاق و رجوع میں
شاید مری نماز یہیں ختم ہو گئی
اک عمر ہو گئی کہ رکا ہوں رکوع میں
مہمل سہی پہ تاب و توانائی دیکھیے
اس عین سے جو آئی ہے اس آب و جوع میں
اردو میں تو بس ایک وضو اور اک نماز
دو دو نمازیں ہوتی ہیں عربی وضوع میں
اصلیں تمام ناچتی گاتی گزر گئیں
دیکھا نہیں کسی نے وفور فروع میں
احساسؔ کیا ہے یہ ظفرؔ اقبالؔ کی طرح
توسیع عین شعر کی حد وقوع میں

غزل
نا قابل یقیں تھا اگرچہ شروع میں
فرحت احساس