EN हिंदी
نا مرادی ہی لکھی تھی سو وہ پوری ہو گئی | شیح شیری
na-muradi hi likhi thi so wo puri ho gai

غزل

نا مرادی ہی لکھی تھی سو وہ پوری ہو گئی

وجد چغتائی

;

نا مرادی ہی لکھی تھی سو وہ پوری ہو گئی
زندگی جل کر بجھی اور راکھ جیسی ہو گئی

لوگ کیا سمجھیں کہ غم سے شکل کیسی ہو گئی
آئنہ ٹوٹا تو قیمت اور دونی ہو گئی

رفتہ رفتہ دوریوں سے آنچ دھیمی ہو گئی
لیکن اک تصویر تھی دل میں جو گہری ہو گئی

دو نگاہوں کا تصادم چند لمحوں کا سوال
اور رسوائی جہاں میں عمر بھر کی ہو گئی

یاد سے تیری ہوئے پر نور اپنے روز و شب
دل کی رعنائی بڑھی اور رات اجلی ہو گئی

سوز دل نے رفتہ رفتہ راکھ ہم کو کر دیا
ہم یہ سمجھے تھے کہ شاید آگ ٹھنڈی ہو گئی

کتنے جوہر کر دیئے پیدا مآل عشق نے
دل میں کیسا سوز کیسی درد مندی ہو گئی

وجدؔ ہم اب تک نہ سمجھے رمز تکمیل وفا
دم گھٹا راتوں کو اکثر جان آدھی ہو گئی