ناخوش دکھا کے جس کو ناز و عتاب کیجے
اے مہرباں پھر اس کو خوش بھی شتاب کیجے
جو اپنے مبتلا ہوں اور دل سے چاہتے ہوں
لازم نہیں پھر ان سے رکئے حجاب کیجے
بیٹھے جو شام تک ہم بولا وہ مہرباں ہو
جو خواہشیں ہیں ان کا کچھ انتخاب کیجے
ہم نے نظیرؔ ہنس کر اس شوخ سے کہا یوں
ہیں خواہشیں تو اتنی کیا کیا حساب کیجے
موقع کی اب تو یہ ہے جو وقت شب ہے اے جاں
ہم بیٹھے پاؤں دابیں اور آپ خواب کیجے
غزل
ناخوش دکھا کے جس کو ناز و عتاب کیجے
نظیر اکبرآبادی