نافہم کہوں میں اسے ایسا بھی نہیں ہے
کیا شے ہے محبت وہ سمجھتا بھی نہیں ہے
مانا کہ بہت رابطۂ عشق ہے نازک
ہم توڑ سکیں جس کو وہ رشتا بھی نہیں ہے
ہر شے سے جدا ہے دل برباد کی فطرت
جب تک نہ ہو برباد سنورتا بھی نہیں ہے
امید ہے وابستہ مری ابر کرم سے
اور ابر کرم ہے کہ برستا بھی نہیں ہے
آساں نہیں اس راہ محبت سے گزرنا
جس راہ میں ہلکا سا اجالا بھی نہیں ہے
ہر وقت گلستاں پہ خزاں کی ہیں نگاہیں
کھلتے ہوئے پھولوں کا بھروسا بھی نہیں ہے
ہمدردی احباب کا کیا ذکر ہے شاعرؔ
اس سمت کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہے

غزل
نافہم کہوں میں اسے ایسا بھی نہیں ہے
شاعر فتح پوری