EN हिंदी
نہ ذکر گل کا کہیں ہے نہ ماہتاب کا ہے | شیح شیری
na zikr gul ka kahin hai na mahtab ka hai

غزل

نہ ذکر گل کا کہیں ہے نہ ماہتاب کا ہے

صدا انبالوی

;

نہ ذکر گل کا کہیں ہے نہ ماہتاب کا ہے
تمام شہر میں چرچا ترے شباب کا ہے

شراب اپنی جگہ چاندنی ہے اپنی جگہ
مگر جواب ہی کیا حس بے نقاب کا ہے

ہوئے ہیں ناگہاں بسمل شریک بزم جو سب
قصور کچھ ہے ترا کچھ ترے نقاب کا ہے

نہ تو نے مے چکھی زاہد نہ جرم عشق کیا
تو صبح و شام تجھے فکر کس عذاب کا ہے

مے طہور کا اس وقت لے نہ نام اے شیخ
یہ وقت شام تو انگور کی شراب کا ہے

صداؔ کے پاس ہے دنیا کا تجربہ واعظ
تمہاری بات میں بس فلسفہ کتاب کا ہے