نہ ذکر گل کا کہیں ہے نہ ماہتاب کا ہے
تمام شہر میں چرچا ترے شباب کا ہے
شراب اپنی جگہ چاندنی ہے اپنی جگہ
مگر جواب ہی کیا حس بے نقاب کا ہے
ہوئے ہیں ناگہاں بسمل شریک بزم جو سب
قصور کچھ ہے ترا کچھ ترے نقاب کا ہے
نہ تو نے مے چکھی زاہد نہ جرم عشق کیا
تو صبح و شام تجھے فکر کس عذاب کا ہے
مے طہور کا اس وقت لے نہ نام اے شیخ
یہ وقت شام تو انگور کی شراب کا ہے
صداؔ کے پاس ہے دنیا کا تجربہ واعظ
تمہاری بات میں بس فلسفہ کتاب کا ہے
غزل
نہ ذکر گل کا کہیں ہے نہ ماہتاب کا ہے
صدا انبالوی