نہ وہ ولولے ہیں دل میں نہ وہ عالم جوانی
کوئی لے گیا ہے مجھ سے مرا دور شادمانی
وہ بھلا چکے ہیں مجھ کو میں بھلا چکا ہوں ان کو
کبھی پا سکی نہ عنواں مرے پیار کی کہانی
شب ہجر کی تڑپ نے وہ مزا دیا ہے مجھ کو
کہ دعائیں مانگتا ہوں یہ تڑپ ہو جاودانی
ترے کان سن چکے ہیں نئے گیت بوالہوس کے
مجھے یاد ہے وفا کی وہی داستاں پرانی
تجھے کھو دیا ہے پا کر یہ مری ہے بد نصیبی
کبھی تم بتا تو دیتے مجھے وجہ بد گمانی
تری مہربانیوں کی کبھی آرزو تھی دل میں
وہ مقام آ گیا ہے کہ گراں ہے مہربانی
ترے پیار میں حزیںؔ کو جو ملا ہے داغ فرقت
مرے پاس اب وہی ہے ترے پیار کی نشانی

غزل
نہ وہ ولولے ہیں دل میں نہ وہ عالم جوانی
ہنس راج سچدیو حزیںؔ