نہ وہ اقرار کرتا ہے نہ وہ انکار کرتا ہے
ہمیں پھر بھی گماں ہے وہ ہمیں سے پیار کرتا ہے
میں اس کے کس ستم کی سرخیاں اخبار میں دیکھوں
وہ ظالم ہے مگر ہر ظلم سے انکار کرتا ہے
منڈیروں سے کوئی مانوس سی آواز آتی ہے
کوئی تو یاد ہم کو بھی پس دیوار کرتا ہے
یہ اس کے پیار کی باتیں فقط قصے پرانے ہیں
بھلا کچے گھڑے پر کون دریا پار کرتا ہے
ہمیں یہ دکھ کہ وہ اکثر کئی موسم نہیں ملتا
مگر ملنے کا وعدہ ہم سے وہ ہر بار کرتا ہے
حسنؔ راتوں کو جب سب لوگ میٹھی نیند سوتے ہیں
تو اک خواب آشنا چہرہ ہمیں بیدار کرتا ہے
غزل
نہ وہ اقرار کرتا ہے نہ وہ انکار کرتا ہے
حسن رضوی