نہ وہ ہجر میں رہیں تلخیاں نہ وہ لذتیں ہیں وصال میں
نہ گزر ترا مرے خواب میں نہ میں گم ہوں تیرے خیال میں
نہ تری ادا میں وہ دل کشی نہ مری غزل میں وہ تازگی
وہ غبار وقت میں دب گئی جو کشش تھی حسن و جمال میں
میں تری جفا سے خفا نہیں مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں
مجھے فکر کیا ہے مآل کی تجھے کیا ملا ہے وبال میں
نہ وہ آہ غم نہ وہ چشم نم نہ وہ لغزشیں ہیں قدم قدم
نہ وہ کشمکش ہے جواب میں نہ وہ ولولے ہیں سوال میں
مجھے کوئی فکر اساس ہے نہ خیال ہوش و حواس ہے
دم زندگی کا ہراس ہے نہ تمیز ہے مہ و سال میں
غزل
نہ وہ ہجر میں رہیں تلخیاں نہ وہ لذتیں ہیں وصال میں
موسیٰ رضا