نہ واپسی ہے جہاں سے وہاں ہیں سب کے سب
زمیں پہ رہ کے زمیں پر کہاں ہیں سب کے سب
کوئی بھی اب تو کسی کے مخالفت میں نہیں
اب ایک دوسرے کے راز داں ہیں سب کے سب
قدم قدم پہ اندھیرے سوال کرتے ہیں
یہ کیسے نور کا طرز بیاں ہیں سب کے سب
وہ بولتے ہیں مگر بط رکھ نہیں پاتے
زبان رکھتے ہے پر بے زباں ہیں سب کے سب
سوئی کے گرنے کی آہٹ سے گونج اٹھتے ہیں
گرفت خوف میں خالی مکاں ہیں سب کے سب
جھکائے سر جو کھڑے ہیں خلاف ظلموں کے
لگا ہے ایسا دویجؔ بے زباں ہیں سب کے سب
غزل
نہ واپسی ہے جہاں سے وہاں ہیں سب کے سب
دوجیندر دوج